Saturday 23 January 2016

Hazoor KI Tazeem by Muhammad Raza Saqib Mustafai sb

Hazoor KI Tazeem by Muhammad Raza Saqib Mustafai sb





میری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا۔

قارون حضرت موسی علیہ السلام کے چاچا کا لڑکا تھا یہ بہت خوش آواز تھا۔ تورات بڑی خوش الحالی سے پڑھتاتھا۔ اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے۔یہ چونکہ بہت مالدار تھا ، اس لئے اللہ کو بھول بیٹھا تھا۔قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور تکبر اور اس کی دولت ظاہر ہو۔اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس کے خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی۔اس کے بہت سے خزانے تھے ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی۔قوم کے بزرگوں نے قارون کو نصیحت کی کہ اتنا اکڑا مت تو قارون نے جواب دیا , کہ" میں ایک عقلمند،زیرک، دانا شخص ہوں اور اسے اللہ بھی جانتاہے، اسی لئے اس نے مجھے دولت دی ہے۔ "قارون ایک دن نہایت قیمتی پوشاک پہن کر رزق برق عمدہ سواری پر سوار ہوکر اپنے غلاموں کو آگے پیچھے بیش بہا پوشاکیں پہنائے ہوئے لے کر بڑے ٹھاٹھ سے اتراتا ہوا نکلا، اس کا یہ ٹھاٹھ اور یہ زینت و تجمل دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور کہنےلگے کاش ہمارے پاس بھی اس جتنا مال ہوتا یہ تو بڑا خوش نصیب ہے اور بڑی قسمت والا ہے۔قارون اس طمطراق سے نکلا وہ سفید قیمتی خچر پر بیش بہا پوشاک پہنے تھا تب ادھر حضرت موسی علیہ السلام خطبہ پڑھ رہے تھے، بنواسرائیل کا مجمع تھا سب کی نگاہیں اس کی دھوم دھام پر لگگئی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس سے پوچھا" اس طرح کیسے نکلے ہو؟ "اس نے کہا:ایک فضیلت اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اگر تمہارے پاس نبوت ہے تو میرے پاس عزت ودولت ہے اگر آپ کو میری فضیلت میں شک ہے تو میں تیارٰ ہوں آپ اللہ سے دعا کریں دیکھ لیجئے اللہ کس کی دعا قبول کرتاہے" آپ علیہ السلام اس بات پر آمادہ ہوگئے اور اسے لےکرچلے حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا:"اب پہلے دعا کروں یا تو کرے گا "قارون نے کہا میں کروں گا اس نے دعا مانگی لیکن قبول نہ ہوئیحضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے سے دعا کی یا اللہ زمین کو حکم کر جو میں کہوں مان لے۔اللہ نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور وحی آئی میں نے زمین کو تیری اطاعت کا حکم دے دیا ہے حضرے موسی علیہ السلام نے یہ سن زمین سے کہا:"اے زمین اسے اور اس کے لوگوں کو پکڑ لے وہیں یہ لوگ اپنے قدموں تک زمین میں دھنس گئے،پھر مونڈھوں تک ،پھر فرمایا اس کے خزانے اور اس کے مال بھی یہیں لے آؤ اسی وقت قارون کے تمام خزانے آگئے آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ قاروں اپنے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا زمین جیسی تھی ویسی ہوگئی "ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا ۔ ۔ ۔بحوالہ:تفسیر ابن کثیر ۔!!!

مجھے اچانک کہیں سے ایک لاکھ روپے ملے یہ ایک لاکھ معجزانہ طور پر ایک دوست دے گیا کہ تم یہ پیسے رکھ لو.....میں نے کہا لیکن کیوں..کہتا ویسے ہی میرے پاس پڑے تھے تو سوچا تمہیں دے آوں شاید تمہارے کام آجائیں. کہنے لگا میں کافی دنوں سے تمہیں یہ پیسے دینا چاہتاتھا لیکن وقت نہیں مل رہا تھا. مجھے وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی یہ کیوں پیسے دے رہا ہے......خیر اس کے بے حد اصرار پر میں نے پیسے لے لیے اور گھر بھیج دیے کیونکہ پچھلے 6 ماہ سے میں پاکستان اپنی والدہ اور بیوی بچوں کو پیسے نہ بھیج سکا تھا. پیسے بھیجنے کے بعد امی کو فون کیا یہ بتانے کےلئے کہ آپکو ایک لاکھ روپے بھیجیں ہیں 2 دن تک بینک سے لیں آئیں........یہ سن کر والدہ نے زاروقطار رونا شروع کر دیا........میں نے پوچھا امی جی کیا ہوا.....فون پر سسکیوں کی آواز سن کر پریشان ہوگیا پھر پوچھا امی جی کیا ہوا.ماں کے حلق سے آواز نہ نکلتی تھی بڑی مشکل سے روتے ہوئے بس یہی کہہ پائیں کہ بے شک وہی رازق ہے وہی وہ دینے والا ھے. وہی انتظام کرتا ہے. اور روتی جاتیں...جب کچھ صبر آیا تب امی جان کہنے لگی کہ بتاو تمہارے پاس یہ پیسے کہاں سے آئے تم تو فارغ ہو.......میں نے بتایا کہ ایک دوست گھر آکر دے گیا ہے. یہ الفاظ سننے تھے کہ ماں نے پھر رونا شروع کر دیا. مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخرماجرا کیا ھے. ماں کے رونے کا سبب پوچھا کہ امی آپ رو کیوں رہی ہیں.... کچھ تو بتائیں........تو کہنے لگی کہ 15 دن پہلے مسجد سے چند لوگ آئے تھے کہ مسجد کی تعمیر میں کچھ حصہ ڈالیں.......میں نے ایک ہزار روپے دینے کا وعدہ کرلیا تھا. لیکن پیسوں کا انتظام نہیں ہورہا تھا گھر میں تقریبا فاقے چل رہے تھے.....لیکن میں نے نیت کی تھی کہ جو بھی ہوجائے ایک ہزار مسجد کی تعمیر میں لازمی دینا ہے ابھی 10 منٹ پہلے وہ لوگ آئےتھے تو میں نے اپنی ساری جمع پونجی جو بڑی مشکل سے 1000 بنے ان کو دے دیے اور ابھی دروازے سے واپس لوٹتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اب خدا سے تجارت کرلیاب رزق کا سامان وہ کرے گا.اور 10 منٹ بھی نہیں گزرے تمہارا فون آگیا کہ ایک لاکھ روپے بھیجیں ہیں. امی روتی جارہی تھی اور کہتی جاتی بے شک خدا کی راہ میں دینے والوںکو وہ اور بڑھا کر دیتا ھے...........اس واقعہ نے میرا توکل اور بڑھا دیا کہ خدا کیسے رزق کا سامان کرتا ہے.........کسی کے آگے ہاتھ بھی پھیلانے نہیں دیتا. وہ ستار ہے پردہ پوشی بھی کرتا ہے....اور آزما بھی لیتا ہے کہ کون ہے جو تنگی کی حالت میں راہ خدا میں خرچ کرتاہے.......بے شک وہ بڑا غفور الرحیم ہے. اس کے کرم کی کوئی حد نہیں۔۔!!

ﺟﺐ ﺁﭖ ﻣﺠھ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻋیب ﺩﯾﮑﮭﻮ تو ﻣﺠھ ﺳﮯ ﮐﮩﻮ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻋﯿﺐ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮬﯽ ﺑﺪﻟﻨﺎ ﮬﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ.....
ﻣﺠھ ﺳﮯ ﮐﮩﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮩﻼﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺟﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻏﯿﺒﺖ ﮐﮩﻼﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ!!

ایک دفعہ میں اپنے استاد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا،
میں نے سوال کیا:
حضرت قران کہتا ہے:
"اِنَّ الصّلوۃَ تَنہیٰ عَنِ الفَحشَاءِ وَالمُنکَر۔
بے شک نماز بُرے اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔
(سورہ عنکبوت آیۃ 45)
لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں اور سود بھی کھاتے ہیں، جھوٹ بھی بولتے ہیں، بے حیائی کے کام بھی کرتے ہیں۔
ہم خود بھی نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے مکمل طور پر کنارہ کش نہیں ہو پاتے۔
تو اِس آیۃ کا کیا مطلب ہوا؟
فرمانے لگے:
بیٹا۔ قران کی آیۃ پر نہیں اپنی نمازوں پر شک کرو۔
کہ ان نمازوں میں ایسی کون سی کمی ہے جو تمہیں گناہوں سے نہیں روک پا رہیں۔
صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے کبھی یہ سوال نہیں کیا، کیونکہ انکی نمازیں واقعی نمازیں تھیں۔
اب بھلا سوچو اگر ایک شخص کو دن میں پانچ بار عدالت میں جج کا سامنا کرنا ہو تو کیا وہ جرم کرنے کا سوچے گا بھی؟
جرم تو وہ کرتا ہے جو سمجھتا ہے کہ عدالت سے بچ جائیگا۔
یہ جواب سن کر مجھے وہ حدیث یاد آگئی کہ بہت سے نمازیوں کی نمازیں انکے منہ پر مار دی جائینگی۔
یا اللہ ہمیں اصلی اور سچی نمازیں پڑھنے اور اس پر پابند ہونے اور رہنے کی توفیق عطا فرما دے۔
آمین
نماز فرض ، روزہ فرض  حج فرض
مختصر یہ کہ سب سے بڑا فرض
عزتِ رسول ﷺ پر پہرہ ہے۔!!

ہائی سٹریٹ ساہیوال پر موٹر سائیکل کو پنکچر لگواتے ہوئے میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اس ہفتے بھی اپنے گھر واپس کبیروالا نہ ہی جاوں تو بہتر ہے ،دیر تو ویسے بھی ہوچکی تھی اورجہاں پچھلےتین ہفتے گزر گئے ہیں یہ بھی گزار ہی لوں تو گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک ہی بار چلا جاوں گا۔ اسی سوچ بچار میں روڈ پر کھڑے میں نے پندرہ سولہ سال کے ایک نوجواں کو اپنی طرف متوجہ پایا۔وہ عجیب سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھ رہا تھا،جیسے کوئی بات کرنا چاہ رہا ہو۔لیکن رش کی وجہ سے نہیں کر پا رہاتھا۔جب پنکچر لگ گیا تو میں نے دکاندار کو 100 روپے کا نوٹ دیا اس نے 20 روپے کاٹ کر باقی مجھے واپس کر دیے۔میں موٹر سائیکل پر سوار ہوکر جونہی واپس شہر کی طرف مڑنے لگاتو وہ لڑکا جلدی سے میرے پاس آکر کہنے لگا " بھائی جان میں گھر سے مزدوری کرنے آیا تھا ،آج دیہاڑی نہیں لگی آپ مجھے واپسی کا کرایہ 20 روپے دے دیں گے"میں نے ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی ،سادہ سا لباس،ماتھے پر تیل سے چپکے ہوئے بال ،پاوں میں سیمنٹ بھراجوتا۔مجھے وہ سچا لگا،میں نے 20 روپے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دئیے ،وہ شکریہ ادا کر کے چلنےلگا تو نہ جانے میرے دل کیا خیال آیا ،میں نے کہا،سنو ،تمہیں دیہاڑی کتنی ملتی ہے،اس کے جواب دینےسے پہلے ہی میں نے باقی کے 60 روپے بھی اس کی طرف بڑھا دیے۔وہ ہچکچاتے ہوئے پیچھے ہٹا اور کہنے لگا"نہیں بھائی جان !میرا گھر منڈھالی شریف ہے،میں پیدل بھی جاسکتا تھا لیکن کل سےماں جی کی طبیعت ٹھیک نہیں ،اوپر سے دیہاڑی بھی نہیں لگی،سوچا آج جلدی جا کر ماں جی کی خدمت کر لوں گا"۔میں نے کہا اچھا یہ پیسے لے لو ماں جی کے لیے دوائی لے جانا۔وہ کہنے لگا" دوائی تو میں کل ہی لے گیا تھا۔آج میں سارا دن ماں جی کے پاس رہوں گا تو وہ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی،مائیں دوائی سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں بابوجی!" میں نے حیران ہو کرپوچھا ،تمہارا نام کیا ہے؟ اتنے میں اس کی بس بھی آگئی،وہ بس کے گیٹ میں لپک کر چڑھ گیا اور میری طرف مسکراتے ہوئے زور سے بولا"گلو" ۔گلو کی بس چل پڑی لیکن گلو کے واپس کیے ہوئے 60 روپے میری ہتھیلی پر پڑے ہوئے تھے اورمیں ہائی سٹریٹ کے رش میں خود کو یک دم بہت اکیلا محسوس کرنے لگا۔کچھ سوچ کر میں نے موٹرسائیکل کارخ ریلوے اسٹیشن کی طرف موڑ لیا۔موٹر سائیکل کو اسٹینڈ پر کھڑا کرکے ٹوکن لیا اور ٹکٹ گھر سے 50 روپے میں خانیوال کا ٹکٹ لے کر گاڑی کے انتظار میں بینچ پر بیٹھ گیا۔کب گاڑی آئی ،کیسے میں سوار ہوا کچھ خبر نہیں، خانیوال اسٹیشن پر اتر کے پھاٹک سے کبیروالا کی وین پر سوار ہوا،آخری بچے ہوئے10 روپے کرایہ دے کر جب شام ڈھلے اپنے گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوا تو سامنے صحن میں چارپائی پر امی جان سر پر کپڑا باندھے نیم دارز تھیں۔میرا بڑا بھائی دوائی کا چمچ بھر کر انہیں پلا رہا تھا۔مجھے دیکھتے ہی امی جان اٹھ کر کھڑی ہوئیں اور اونچی آواز میں کہنے لگیں" او! میرا پترخیر سے گھر آگیا ہے! اب میں بالکل ٹھیک ہوں "۔ میں آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے دوڑ کر ان کے سینے سے جالگا۔ بس کے گیٹ میں کھڑے گلوکا مسکراتا ہوا چہرہ یک دم میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور میں سمجھ گیا کہ اس نے مجھے 60روپے واپس کیوں کیےتھے۔
چراغ لے کے کوئی ،راستے میں بیٹھا تھا
مجھے سفر میں جہاں رات ہونے والی تھی

غزوہ حنین
(اس جنگ میں پہلے شکست ہوئی پھر فتح حاصل ہوگئی۔)

فتح مکہ کے بعد مشرکینِ عرب کی شوکت کا قریب قریب خاتمہ ہو گیا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ یہ دیکھ کر ''ہوازن''اور ''ثقیف''کے دونوں قبائل کے سرداروں کا اجتماع ہوا، اور انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اپنی قوم ''قریش''کو مغلوب کر کے مطمئن ہو گئے ہیں۔ لہٰذا اب ہماری باری ہے تو کیوں نہ ہم پیش قدمی کر کے حملہ آور ہو کر ان مسلمانوں کا قلع قمع کرکے رکھ دیں۔ چنانچہ ہوازن اور ثقیف کے دونوں قبائل نے مالک بن عوف نضری کو اپنا بادشاہ بنا کر مسلمانوں سے جنگ کی تیاری شروع کردی۔

یہ خبر پا کر ۱۰ شوال ۸ ؁ھ مطابق فروری ۶۳۰ ؁ کو دس ہزار مہاجرین و انصار اور دو ہزار مکہ کے نو مسلم اور اسی وہ مشرکین جو اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود اپنی خواہش سے مسلمانوں کے رفیق بن گئے۔ کل تقریباً بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر ساتھ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ''مقام حنین''پہنچ گئے۔ جب دشمن کے مقابلہ میں صف آرائی کا وقت آیا تو آپ نے مہاجرین کا پرچم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا اور انصار میں بنی خزرج کا علمبردار حضرت حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا اور اَوس کا جھنڈا حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمایا اور خو دنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس بدن پر ہتھیار سجا کر زرہ پہن کر اور سر انور پر آہنی ٹوپی رکھ کر اپنے خچر پر سوار ہوئے اور اسلامی فوج کی کمان سنبھال لی۔

مسلمانوں کے دلوں میں اپنے لشکر کی اکثریت دیکھ کر کچھ گھمنڈ پیدا ہو گیا یہاں تک کہ بعض لوگوں کی زبان سے بغیر ''ان شاء اللہ''کہے یہ لفظ نکل گیا کہ آج ہماری قوت کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ مسلمانوں کا اپنی فوج کی عددی اکثریت اور عسکری طاقت پر بھروسہ کر کے فخر کرنا خداوند تعالیٰ کو پسند نہیں آیا لہٰذا مسلمانوں پر خدا کی طرف سے یہ تازیانہ عبرت لگا کہ جب جنگ شروع ہوئی تو اچانک دشمن کی ان ٹولیوں نے جو گوریلا جنگ کے لئے پہاڑوں کی مختلف گھاٹیوں میں گھات لگائے بیٹھی تھی اس زور و شور کے ساتھ تیر اندازی شروع کردی کہ مسلمان تیروں کی بارش سے بدحواس ہو گئے اور اس ناگہانی تیر بارانی کی بوچھاڑ سے ان کی صفیں درہم برہم ہو گئیں اور تھوڑی ہی دیر میں مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور چند مہاجرین و انصار کے سوا تمام لشکر میدانِ جنگ سے فرار ہو گیا۔

اس خطرناک صورتِ حال اور نازک گھڑی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار برابر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے اور رجز کا یہ شعر بلند آواز سے پڑھ رہے تھے۔
انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب
یعنی میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹی بات نہیں، میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں۔

بالآخر حضور کے حکم پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بآواز بلند بھاگے ہوئے مسلمانوں کو پکارا اور یا معشر الانصار یا اصحاب بیعۃ الرضوان کہہ کر للکارا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ للکار اور پکار سن کر تمام جاں نثار مسلمان پلٹ پڑے اور پرچم نبوت کے نیچے جمع ہو کر ایسی جاں نثاری کے ساتھ داد شجاعت دینے لگے کہ دم زدن میں میدانِ جنگ کا نقشہ ہی پلٹ گیا اور یہ نتیجہ نکلا کہ شکست کے بعد مسلمان فتح مند ہو گئے اور پرچم اسلام سربلند ہوگیا، ہزاروں کفار گرفتار ہو گئے اور بہت سے تلوار کا لقمہ بن گئے اور بے شمار مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور کفارِ عرب کی طاقت و شوکت کا جنازہ نکل گیا۔

جنگ حنین میں مسلمانوں کے اپنی کثرت تعداد پر غرور کے انجام میں شکست اور پھر فتح ونصرت کا حال خداوند ذوالجلال نے قرآن کریم میں ان الفاظ سے ذکر فرمایا ہے کہ:

لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّیَوْمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنۡکُمْ شَیْـًٔا وَّضَاقَتْ عَلَیۡکُمُ الۡاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدْبِرِیۡنَ ﴿ۚ25﴾ثُمَّ اَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ۚ وَعَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿26﴾

ترجمہ :۔بے شک اللہ نے بہت جگہ تمہاری مدد کی اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اِترا گئے تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اتنی وسیع ہو کر تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ دے کر پھر گئے پھر اللہ نے اپنی تسکین اتاری اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہ دیکھے اور کافروں کو عذاب دیا اور منکروں کی یہی سزا ہے۔ (پ10،التوبہ:26.25)

جنگ حنین کا یہ واقعہ دلیل ہے کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں فتح و کامرانی فوجوں کی کثرت اور سامانِ جنگ کی فراوانی سے نہیں ملتی۔ بلکہ فتح و نصرت کا دارومدار درحقیقت پروردگار کے فضل عظیم پر ہے۔ اگر وہ رب کریم اپنا فضل عظیم فرما دے تو چھوٹے سے چھوٹا لشکر بڑی سے بڑی فوج پر غالب ہو کر مظفر و منصور ہو سکتا ہے اور اگر اس کا فضل و کرم شامل حال نہ ہو تو بڑے سے بڑا لشکر چھوٹی سے چھوٹی فوج سے مغلوب ہو کر شکست کھا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو لازم ہے کہ کبھی بھی اپنے لشکر کی کثرت پر اعتماد نہ رکھیں بلکہ ہمیشہ خداوند قدوس کے فضل و کرم پر بھروسہ رکھیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔


نیک اعمال کا وسیلہ

یہ واقعہ آپ نے کافی دفعہ سنا ہوگا لیکن شائد آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ واقعہ حدیث شریف میں بیان ہوا ہے۔ آئیے اس واقعہ کو حدیث کی روشنی میں اپنے ورثہ پیج کے دوستوں کو بتاتے ہیں۔

مسلم شریف ،کتاب الذکر والدعاء، باب قصہ اصحاب الغا ر ثلاثۃ ، حدیث نمبر ۲۷۴۳ میں بیان ہوتا ہے۔

حضرتِ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا،

'' تم سے پچھلی امتوں میں سے تین شخص سفر پر نکلے رات گزارنے کے لئے انہوں نے ایک غار میں پناہ لی، اچانک پہاڑ سے ایک چٹان گری اور اس نے غار کا دہانہ بندکردیا تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے ـکہ''تمہیں اس چٹا ن سے صرف یہ با ت نجات دلا سکتی ہے کہ تم اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کرو۔''

تو ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا،'' اے اللہ عزوجل! میرے والدین بہت بوڑھے تھے اور میں ان سے پہلے نہ اپنے گھر والوں کو دودھ پلاتا اورنہ ہی اپنے مویشیوں کو سیراب کرتاتھا۔ ایک دن چارے کی تلاش میں مجھے بہت دیرہوگئی اور میں ان کے سونے سے پہلے واپس نہ آسکا تو میں نے ان کے لئے دودھ دوہا اور ان کو سوتے ہوئے پایا تو میں نے ان سے پہلے اپنے گھروالوں کو دودھ پلانااور مویشیوں کو سیراب کرنا پسند نہ کیا ۔چنانچہ میں برتن لے کر فجر روشن ہونے تک ان کے بیدار ہونے کا انتظارکرتارہا ۔''ایک روایت میں ہے کہ'' میرے بچے میرے قدموں میں مچلتے رہے پھرجب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے دودھ سے اپنا حصہ پیا، تو اے اللہ عزوجل! اگر میں نے یہ عمل تیری رضا کی طلب میں کیا تھا تو ہم سے اس چٹان کی مصیبت کو دور فرما دے۔ '' تو وہ چٹان تھوڑی سرک گئی مگر نکلنے کا راستہ نہ بنا ۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے دوسرے شخص نے عرض کیا،'' اے اللہ عزوجل !میری ایک چچا زاد بہن تھی وہ مجھے سب لوگوں سے زیادہ پسند تھی۔ میں نے اس کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تو وہ میرے قابو میں نہ آئی یہاں تک کہ ایک سال وہ تنگ دستی میں مبتلاء ہوئی تو میرے پاس آئی تو میں نے اسے ایک سو بیس دینار تنہائی میں ملاقات کرنے کی شرط پر دئیے تو وہ راضی ہو گئی۔ پھر جب میں نے اس پر قابو پالیا تو وہ کہنے لگی،'' میں تیرے لئے حلال نہیں اللہ عزوجل سے ڈرو اور حرام کام میں مت پڑو '' تو میں اس کے ساتھ زنا کرنے سے رک گیا۔ جب میں اس سے دور ہو ا اس وقت بھی وہ سب لوگوں میں مجھے زیادہ پسند تھی اور میں نے جو سونا اسے دے دیا تھااسی کے پاس رہنے دیا ،اے اللہ عزوجل! اگر میں نے یہ عمل تیری رضا کے لئے کیا تھاتو ہم سے اس مصیبت کو دور فرمادے جس میں ہم مبتلا ہیں۔'' توچٹان مزید سرک گئی مگر باہر نکلنے کا راستہ اب بھی نہیں بن سکا ۔

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ تیسرے شخص نے عرض کیا ، ''اے اللہ عزوجل! میں نے کچھ لوگوں کو اجرت پر رکھا تھا اور ان سب کو ان کی اجرت ادا کردی۔ مگر ایک شخص اپنی اجرت میرے پاس چھوڑگیا تھا ۔ میں نے اس کی اجرت تجارت میں لگادی حتی کہ اس کا مال کثیر ہوگیا ۔پھر وہ کچھ عرصہ بعد میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ'' میری اجرت مجھے دے دو۔'' تو میں نے اس سے کہا کہ'' تو یہ جو اونٹ،گائے ،بکریاں اور غلام دیکھ رہا ہے یہ سب تیری اجرت ہے۔'' وہ کہنے لگا،'' اے اللہ عزوجل کے بندے! میرے ساتھ مذاق مت کر۔'' تو میں نے کہا ، ''میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کررہا۔'' تو وہ سارا مال ہانک کرلے گیا اور اس میں سے کچھ نہ چھوڑا، اے اللہ عزوجل! اگر میں نے یہ عمل تیری رضا کے لئے کیا تھا تو ہم سے اس مصیبت کو دور فرمادے جس میں ہم مبتلا ہیں۔'' تو چٹان بالکل ہٹ گئی اور وہ غار سے باہر نکل آئے۔

(مسلم ،کتاب الذکر والدعاء، باب قصہ اصحاب الغا ر ثلاثۃ ،رقم ۲۷۴۳ ،ص۱۴۶۵ )

اللہ عزوجل ہم سب کو اخلاص کی تو فیق عطا فرمائے (آمین) یاد رکھوکہ تمام اعمال ِصالحہ کی قبولیت اور اجرو ثواب کے حصول کے لئے اخلاص اولین شرط ہے اور اخلاص کے بغیر کیا جانے والا عمل ہلاکت کے قریب ہوتا ہے۔
حضرتِ سیدنا سہل بن عبداللہ تستری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ'' سارا علم دنیا ہے اور اس پر عمل آخرت ہے اور سارا عمل منتشرہے مگر جو اخلاص کے ساتھ کیاجائے ۔نیز فرماتے ہیں کہ علماء کے علا وہ سب لوگ (گویا) مردہ ہیں اور با عمل علماء کے علاوہ سب علماء نشے میں ہیں اور با عمل علماء دھوکے میں ہیں سوائے ان کے جو مخلص ہیں،مخلصین اپنے انجام کے بارے میں خوفزدہ ہیں یہاں تک کہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کا خاتمہ کیسا ہوگا؟لہذا!اگر تم ثواب اور اچھا خاتمہ چاہتے ہوتو اخلاص کے حصول کی کوشش کرتے رہو۔

Monday 11 January 2016


ملفوظات غوث اعظم رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ
.
اﷲ کے نیک بندوں سے محبت کرنا یقیناًاﷲ تبارک و تعالیٰ کو محبوب ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ (پارہ ۱۱، سورۂ توبہ، آیت ۱۱۹) اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے سے ڈرنے اور صادقین کے ساتھ ہونے کا حکم فرمایا ہے تاکہ لوگ ان کی صحبت میں رہ کر خود بھی سچے راستے پر گامزن رہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے ایک بندے سرکار بغداد حضور غوث پاک سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ ہیں، جو کہ تمام اولیاء اﷲ کے سردار ہیں۔
سرکار بغداد حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسم مبارک ’’ عبدالقادر‘‘ اور آپ کی کنیت ’’ ابو محمد ‘‘اور القابات’’ محی الدین ، محبوب سبحانی ، غوث الثقلین ، غوث الاعظم ‘‘وغیرہ ہیں، آپ۴۷۰ھ میں بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور ۵۶۱ ؁ھ میں بغداد شریف میں وصال فرمایا ، آپ کا مزار پر انوار عراق کے مشہور شہر بغداد میں ہے۔
الحمد للّٰہ ! ہم اہلسنت والجماعت حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے حد درجہ محبت و انسیت رکھتے ہیں اور ان کے نام کی فاتحہ دلاتے ہیں ، یہ سب کام یقیناًجائز اور باعث برکت ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بھی انسان سے محبت کا تقاضہ جب ہی پورا ہو سکتا ہے جب اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلا جائے ۔میں کسی کی محبت پر شک نہیں کر رہا لیکن اگر آج جائزہ لیا جائے یہ بات ہم پر آشکارا ہو جائے گی کہ آج ہم حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن صحیح معنیٰ میں ہم ان سے محبت کا دعوے میں سچے نہیں ہیں، انھوں نے ہمیں زندگی جینے کا جو راستہ بتایا آج ہم اس کو بھولے ہوئے ہیں، ہمیں انھوں نے نبی کریم ﷺسے جس محبت کا درس دیا آج ہم اس کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں، جو تعلیمات حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہمیں عطا فرمائیں آج ہم ان پر عمل پیرا ہونا تو دور ان تعلیمات کے خلاف عمل کرنے کو اپنے لئے فخر سمجھ رہے ہیں۔
حضور غوث پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ سے ہماری محبت سچی اسی وقت ہو سکتی ہے جب ہم ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے محبوب بندے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تعلیمات پر مجھ حقیر کو اور جملہ افراد اہلسنت کو اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔اسی امید کے ساتھ حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چند ملفوظات حاضر ہیں۔
خوف خدا:
حضرت محبوب سبحانی، قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے خوف کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’اس کی بہت سی قسمیں ہیں (۱) خوف ..یہ گنہگاروں کو ہوتا ہے(۲)رہبہ ... یہ عابدین کو ہوتا ہے (۳)خشیت ...یہ علماء کو ہوتی ہے۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا: ’’گنہگار کا خوف عذاب سے، عابد کا خوف عبادت کے ثواب کے ضائع ہونے سے اور عالم کا خوف طاعات میں شرک خفی سے ہوتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’عاشقین کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفین کا خوف ہیبت و تعظیم سے ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے کیوں کہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور ان تمام اقسام کے حاملین جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پاجاتے ہیں۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۶۳۲(
اطاعت الٰہی:
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے، اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اْس کا ادب کرنا چاہیے کیوں کہ اس کے تمام کام صحیح ودرست ہوتے ہیں، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت عطا فرمانے والا ہے، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا کچھ چھپا رکھا ہے، اس لئے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہیے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا۔
بندے کا شجرِ ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے، شجرِ ایمانی کی پرورش ضروری ہے، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو، اسے (نیک اعمال کی) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجرِ ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہلِ ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکرِ ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلیٰ مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کر، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب العالمین عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو۔(فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص۴۴(
رضائے اﷲ تبارک و تعالیٰ :
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالیٰ سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادۂ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتۂِ تقدیرنے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس لیے قبول ہوجاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے۔(فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص۵۱۱(
وجد:
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’روح اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت میں مستغرق ہو جائے اور حق تعالیٰ کے لئے سچے طور پر غیر کی محبت دل سے نکال دے۔‘‘ (بہجۃ الاسرار، ص۶۳۲(
وفا :
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ وفا کیا ہے ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’وفا یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں میں اللہ عزوجل کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نہ تو دل میں اِن کے وسوسوں پر دھیان دے اور نہ ہی ان پر نظر ڈالے اور اللہ عزوجل کی حدود کی اپنے قول اور فعل سے حفاظت کرے، اْس کی رضا والے کاموں کی طرف ظاہر و باطن سے پورے طور پر جلدی کی جائے۔‘‘ (بہجۃ الاسرار، ص۵۳۲(
صدق:
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صدق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ
(۱) اقوال میں صدق تو یہ ہے کہ دل کی موافقت قول کے ساتھ اپنے وقت میں ہو۔
(۲) اعمال میں صدق یہ ہے کہ اعمال اس تصور کے ساتھ بجالائے کہ اللہ عزوجل اس کو دیکھ رہاہے اور خود کو بھول جائے۔
(۳) احوال میں صدق یہ ہے کہ طبیعتِ انسانی ہمیشہ حالتِ حق پر قائم رہے اگرچہ دشمن کاخوف ہویادوست کا ناحق مطالبہ ہو۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۵۳۲)
صبر کی حقیقت :
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صبر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’صبر یہ ہے کہ بلاا ور مصیبت کے وقت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اْس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۴۳۲)
شکر :
سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اوراسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۴۳۲)
دْنیا :
حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دنیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’دنیا کو اپنے دل سے مکمل طور پر نکال دے پھر وہ تجھے ضرریعنی نقصان نہیں پہنچائے گی۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۳۳۲)
توکل کی حقیقت:
حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے توَکّل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’دل اللہ عزوجل کی طرف لگا رہے اور اس کے غیر سے الگ رہے۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا کہ ’’توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ سے جھانکنا ۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۲۳۲)
محبت:
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ ’’محبت کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا: ’’محبت، محبوب کی طرف سے دل میں ایک تشویش ہوتی ہے پھر دنیا اس کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے انگوٹھی کا حلقہ یا چھوٹا سا ہجوم، محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے، عاشق ایسے محوہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدہ کے سوا کسی چیز کا ان میں ہوش نہیں، وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب (یعنی محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے ،وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے اور اْس کے ذکر کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے۔‘‘(بہجۃ الاسرار، ص۹۲۲)
ہرحال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو :
حضور سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اور موجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الٰہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء وقدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالیٰ سے دنیا طلب نہ کر، اور ٓزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الٰہی عزوجل پر رضا مندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالیٰ نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظت کی دعا کر، کیونکہ تْو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے ،محتاجی و فقر فاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے۔
امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس حال میں صبح کروں گا آیا اس حال پر جس کو میری طبیعت ناپسند کرتی ہے ،یا اس حال پر کہ جس کو میری طبیعت پسند کرتی ہے، کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بھلائی اور بہتر ی کس میں ہے۔یہ بات اللہ تعالیٰ کی تدبیر پر رضا مندی اس کی پسندیدگی اور اختیار اور اس کی قضاء پر اطمینان و سکون ہونے کے سبب فرمائی۔ (فتوح الغیب مع قلائد الجوہر، ص۷۱۱)
طریقت کے راستے پر چلنے کا نسخہ:
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے طریقت کے راستے پر چلنے کا بہترین نسخہ بتایا ہے جو آج کل کے نام نہاد صوفی اور اپنے آپ کو طریقت کے راستے پر چلنے والا کہنے والوں کے لئے درس عبرت ہے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعتِ مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا (پ۸۲،الحشر:۷)
ترجمہ:اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔
کیونکہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہیے، اس طرح تْو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہوجائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کیے جائیں گے اللہ عزوجل تیری حفاظت فرمائے گا، موا فقتِ خداوندی حاصل ہوگی۔
اللہ عزوجل تجھے گناہوں سے محفوظ فرمائے گا اور تجھے اپنے فضل عظیم سے استقامت عطا فرمائے گا، تجھے دین کے تقاضوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریعت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ (فتوح الغیب، مترجم، ص۲۷)
اللہ تعالیٰ کے ولی کا مقام :
شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا ارشاد مبارک ہے: ’’جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ، اور دنیا و آخرت کی آرزؤوں سے فنا ہو جاتا ہے تَو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تَو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کردیتا ہے۔پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبیر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے۔(فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص۱۰۰)
مومن کی کیفیت حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی مومن کی حالت اور اس کی عادات و خصلت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :’’محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگا دے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹا کر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضلِ عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اِس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کردے گا، عطائے الٰہی عزوجل سے تْو راحت و سکون پائے گا اور اگر تْو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اورتجھ سے فضلِ خداوندی رْک جائے گا۔‘‘
تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ جب تک تْو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تَو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی، توحید، قضائے نفس ،محویت ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کرد ے تو تیرے دل میں اللہ تعالیٰ کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل،ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کرے گا۔
مزید فرماتے ہیں: تیرا نفس اور اعضاء غیر اللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں۔(فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص۳۰۱)
اﷲ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں ان ملفوظات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور فیضان غوث پاک سے فیضیاب فرمائے۔ اٰمین۔
مضمون نگار: توحید احمد خاں رضوی

Hazoor KI Tazeem by Muhammad Raza Saqib Mustafai sb

Thursday 7 January 2016

السلام علیکم فرنڈز !!
ہمارا مقصد تحفظِ ناموس رسالت ﷺ ہے
جو اس وقت سب سے اہم اور ضروری ہے
امید ہے آپ سب ہمارا ساتھ دیں گے ۔